
پاکستان میں
وeرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہونے کی صورت میں بہت سے لوگ اب گھر سے کام کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جبکہ کئی اداروں نے اس بارے میں باقاعدہ طور پر اجازت بھی دے دی ہے۔
اس وقت کئی ایسے پیشے ہیں جن میں ملازمیwن کے لیے گھر سے کام کرنا ممکن ہے۔ وہ افراد جن کا تعلق آن لائن خرید و فروخت، آن لائن بینکنگ یا اکاؤنٹنگ سے ہے وہ با آسانی گھر سے کام کرسکتے ہیں۔
کون سے ادارےe گھر سے کام کرنے کی اجازت دے رہے ہیں؟
اس وقت صرف وہ افراد جو بین الاقوامی اداروں کے لیے کام کرتے ہیں ان میں ملازمین کو بین الاقوامی قواعد کے تحت گھر سے کام کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔
ان اداروں میں اینگرو پاکستان نے مارچ کے مہینے میں اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت تب دی جب ان کی کمپنی میں کام کرنے والے ایک ملازم میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے

اینگرو کے ترجمان امان الحق نے بتایا کہ ان کے پاس wکام کرنے والا شخص حال ہی میں بیرونِ ملک سفر کرکے ملک واپس پہنچا تھا
اینگرو کے ترجمان نے بتایا کہ ’ہمیں جلد ہی سمجھ آگیا eتھا کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے اس وقت دور کر دینا بہتر ہے کیونکہ اس سے باقی لوگوں کی زندگیوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔‘
اس وقت اینگرو کے دفاتر میں صرف 20 فیصد افراد کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور زیادہ تر میٹنsگ واٹس ایپ اور ویڈیو کال ایپ زوُم کے ذریعے کی جارہی ہیں۔
’اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بسوں اور ٹیکسی کے ذریعے پہنچنے والے افراد کا وقت بچ جاتا ہے۔ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً 90 منٹ روز کے بچ جاتے ہیں جو دیگر صورتوں میں ٹرانسپورٹ کے ذریعے پہنچنے میں لگ جاتے ہیں۔ گھر سے کام بروقت ہو رہا ہے۔‘
اس کے علاوہ اینگرو میں کام کرنے والے چینی ملازمین کو چینی حکومت کورونا وائرس کے لیے ٹیسٹ اور سکریننگ کرکے پاکستان بھیجx رہی ہے جبکہ واپس اپنے ملک جانے پر اُن کو سیلف آئسولیشن اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ان چینی ملازمین میں پلانٹ پر کام کرنے والوں کی ایک کم تعداد جبکہ گھر سے کام کرنے والوں کو بھی کمپنی کی 20 فیصد پالیسی کے تحت کام کرایا جارہا ہے۔ یعنی بغیر ضرورت ملازمین کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جن کو روز پلانٹ پر ہونا ضروری ہے۔
امان الحق خود بھی پچھلے ایک ہفتے سے گھر سے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک دو بار ضرورت کے تحت دفتر جانے کے بجائے اُنھوں نے تقریباً تمام کام گھر سے ہی کیے ہیں۔
اس وقت بڑے اداروں میں چینی ویڈیو ایپ زوُم کے علاوہ منڈے بھی استعمال کی جارہی ہے۔ جس کے تحت ویڈیو کال میں تقریباً چھ سے سات افراد ایک بیک وقت بات کرسکتے ہیں۔۔

دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد کیا کریں گے؟
اس وقت کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد ہیں۔ جن کے لیے ملک کے ایک صوبے کے علاوہ قانون واضح نہیں ہے۔اور نہ ہی وہ کام چھوڑ کر گھر بیٹھ سکتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مزدور پیشہ افراد کی تعداد تقریباً چھ کروڑ ہے جبکہ ان میں گھر سے کام کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔
ملک بھر میں مزدوروں کی اس تعداد میں صرف چھ لاکھ افراد ایسے ہیں جو صرف صوبہ سندھ میں سندھ امپلائیز سوشل سکیورٹی انسٹیٹیوشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ یعنی اُن کے حقوق کا تحفظ صرف یہاں تک محفوظ ہے کہ اُن کو کام کی کم سے کم اجرت ملتی رہے گی اور نکالے جانے کی صورت میں ان کو معاوضہ دیا جائے گا۔ لیکن اس شِق کا اطلاق ہر ادارے اور فیکٹری میں نہیں ہوتا۔
لاہور میں قائم لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر خالد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت جو لوگ ملک میں وبا کے باعث گھر سے کام کرنے پر مجبور ہیں ’اُن کے لیے اُن کے اداروں کی طرف سے اور سرکار کی طرف سے فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اُن فیکٹری میں کام کرنے والے افراد کا بھی سوچنا چاہیے جو فیکٹری بند ہونے کے بعد بے روزگار ہوجائیں گے۔‘
Comments
Post a Comment